Inquilab Logo Happiest Places to Work

ہر۵؍ میں سے صرف ایک ہندوستانی نوجوان مصنوعی ذہانت (اے آئی) میں مہارت حاصل کررہا ہے

Updated: July 19, 2025, 1:05 PM IST | Anjali Mittal | New Delhi

گوگل ڈاٹ آرگ اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی معاونت سے جاری رپورٹ میں ملک کے نوجوانوں میں مہارت کے بڑے خلا کو اجاگر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک تیزی سے ’اے آئی ‘پر مبنی معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔

Symbolic image of AI learning. Photo: INN
اے آئی لرننگ کی علامتی تصویر۔ تصویر: آئی این این

گوگل ڈاٹ آرگ اور ایشیائی ترقیاتی بینک (اے ڈی بی) کی معاونت سے جاری رپورٹ میں ملک کے نوجوانوں میں مہارت کے بڑے خلا کو اجاگر کیا گیا ہے۔ خاص طور پر ایسے وقت میں جب ملک تیزی سے ’اے آئی ‘پر مبنی معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق  ہر پانچ میں سے صرف ایک نوجوان نے’اے آئی ‘ سے متعلق مہارت حاصل کرنے کے کسی پروگرام میں حصہ لیا ہے۔  جس کی وجہ سے ایک بڑی آبادی  کیلئےابھرتے شعبوں میں  نوکریوں کے مواقع گھٹنے اور ملازمتوں سے محرومی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
 اپریل ۲۰۲۵ء میں ترتیب دی گئی اس  رپورٹ کا عنوان : ’’اے آئی فار آل: بلڈنگ اَین اے آئی ریڈی ورک فورس اِن ایشیا پیسفک‘‘ہے۔ اس رپورٹ کیلئے  ایشیا پیسفک کے ۸؍ ممالک کے۳؍ہزارافراد کا سروے کیا گیا۔ رپورٹ میں ملک کے نوجوانوں، خاص طور پر۱۵؍ سے۲۹؍ سال کی عمر کے افراد کو ایک اہم طبقہ قرار دیا گیا ہے جو’اے آئی ‘ مہارت حاصل کرنے سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتا ہے۔اگرچہ نوجوانوں میں’اے آئی ‘سیکھنے کا جوش و جذبہ پایا گیا ہے، لیکن۸۰؍فیصد  نوجوان ابھی تک کسی بھی’اے آئی ‘ سے متعلق تربیتی کورس میں داخلہ نہیں لے پائے ہیں۔ رپورٹ سے یہ واضح ہوتا ہے کہ لیبر مارکیٹ میں ’اے آئی‘ سے واقفیت، ڈیجیٹل فیصلہ سازی اور آٹومیشن کی مہارتوں کو روایتی تعلیمی قابلیت پر ترجیح دی جا رہی ہے، اور ہندوستانی نوجوان اس تبدیلی کیلئے ابھی پوری طرح تیار نہیں ہیں۔
’’ہائرنگ ٹرینڈ بدل رہا ہےلیکن گریجویٹس نہیں‘‘
 ہندوستان میں یہ صورتحال اسلئے زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ ملک کی نوجوان آبادی دنیا کی سب سے بڑی آبادیوں میں سے ایک ہے۔ رپورٹ میں صنعتوں کی ضروریات اور نوجوانوں کی موجودہ مہارتوں کے درمیان بڑھتے ہوئے فرق کو اجاگر کیا گیا ہے۔ جیسے جیسے دفاتر میں اے آئی  کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے، ’ہائرنگ‘   ادارے روایتی تعلیم کے مقابلے میں عملی ڈیجیٹل صلاحیتوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں — جیسے کہ اے آئی  ٹولز کے ذریعے آٹومیشن، ڈیٹا پروسیسنگ، اور ورک فلو کو بہتر بنانا۔ تاہم، نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد کو ان عملی مہارتوں کا تجربہ حاصل نہیں ہے۔  اس مطالعے میں ایک اور رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ’’۲۰۲۴ء میں ہندوستان  کےڈیڑھ  لاکھ انجینئرنگ گریجویٹس میں سے صرف ۱۰؍  فیصد کو روزگار ملنے کا امکان ہے۔‘‘ یہ اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تعلیمی نظام اور عملی کام کی تیاری کے درمیان ایک بڑا خلا موجود ہے، جس کے سبب تکنیکی طور پر تعلیم یافتہ افراد بھی نوکریوں سے محروم ہو سکتے ہیں اگر انہیں  اے آئی کی سمجھ نہ ہو۔ رپورٹ کے مطابق سروے میں شامل ۴۰؍ فیصد نوجوانوں نے عملی تربیت کو ترجیح دی جو حقیقی دنیا کی صورت حال پر مبنی ہو، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی کلاس روم تعلیم نوجوانوں کی ضروریات کو پورا نہیں کر پا رہی۔ اسلئے  رپورٹ زور دیتی ہے کہ ایسے تربیتی ماڈل تیار کیے جائیں جو براہِ راست روزگار سے منسلک ہوں، جن میں صنعتی ٹولز، یوزر سینٹرڈ ڈیزائن، اور ورک پلیس سیمولیشنز شامل ہوں تاکہ نوجوانوں کی صلاحیتیں موجودہ  معیار کے مطابق ہو سکیں۔
رکاوٹیں صرف سہولت کی کمی تک محدود نہیں
 اگرچہ ڈیجیٹل انفراسٹرکچر کی کمی ایک بڑی رکاوٹ ہے، لیکن رپورٹ اس سے کہیں گہری ساختیاتی چیلنجز کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ ان میں سب سے اہم مسئلہ کمزور’ ڈیجیٹل لٹریسی‘ ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں اور پہلی نسل کے سیکھنے والوں میں۔ جنوبی ایشیا، جس میں ہندوستان بھی شامل ہے، میں۲۵؍ سال سے کم عمر کے صرف۱۳؍ فیصد افراد کے گھروں میں انٹرنیٹ کی سہولت موجود ہے، جس کی وجہ سے آن لائن مہارت سازی پروگراموں میں شرکت شدید حد تک متاثر ہوتی ہے۔اس کے علاوہ سماجی اور ذہنی رکاوٹیں بھی اس رجحان کو محدود کر رہی ہیں۔ خواتین، غیر رسمی شعبے کے مزدور، اور غیر شہری علاقوں کے لوگ زیادہ خطرات کا شکار ہیں۔
ہندوستان کے پاس اب بھی موقع ہے
 اگرچہ موجودہ حالات حوصلہ شکن ہیں، لیکن رپورٹ مستقبل کیلئے محتاط امید کا اظہار کرتی ہے۔ ہندوستان کو نوجوان آبادی کی صورت میں ایک بڑا آبادیاتی فائدہ حاصل ہے، جسے  ’اسٹرٹیجک ایڈوانٹیج‘ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہندوستان  ایشیا کے ان ۳؍ ممالک میں شامل ہے جہاں اگر فوری سرمایہ کاری کی جائے تو افرادی قوت کے حوالے سے بہترین نتائج حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ (بشکریہ : ٹائمز آف انڈیا)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK